Ad
Tuesday, July 29, 2025
خاموش پہاڑوں کے پیچھے — ایک سچی محبت کی خاموش چیخ
سط 1: پہاڑوں کی وادی میں
بلوچستان کے ایک پسماندہ علاقے "ڈےگاری" میں شام کے سائے پہاڑوں سے لپٹ رہے تھے۔ ایک چھوٹا سا مٹی کا گھر، جہاں بانو بی بی، سترہ سالہ لڑکی، چادر میں لپٹی، آنگن میں پانی بھر رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جو اکثر آنکھیں چھپا لیتی ہیں — خوف، خالی پن، اور ایک دبے ہوئے خواب کی کرچیاں۔
اسی گاؤں میں تھوڑا دور ایک پرانی مدرسے کی دیوار پر احسان اللہ بیٹھا تھا، عمر تقریباً پچیس سال، تعلیم یافتہ مگر بےروزگار۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا — بانو کی تحریر:
"پہاڑوں کے اُس پار شاید زندگی ہو… جہاں ہمیں صرف ہمارا نام جانا جائے، قبیلہ نہیں۔"
قسط 2: پہلی بغاوت
رات کا دوسرا پہر۔ بانو اپنی چپل اتار کر دبے قدموں گھر سے نکلتی ہے۔ احسان موٹر سائیکل پر اس کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ وہ دونوں الفاظ کا تبادلہ نہیں کرتے، بس نظریں ملتی ہیں اور ایک سفر شروع ہوتا ہے — کسی فلمی عشق کا نہیں، بقاء کی تلاش کا۔
وہ بلوچستان سے سندھ کی طرف نکل جاتے ہیں، چھپ کر، ہر اسٹاپ پر ڈرتے ہوئے، ہر اجنبی چہرے سے بچتے ہوئے۔ کراچی کے مضافاتی علاقے میں ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لیتے ہیں۔
قسط 3: نئی دنیا کا آغاز
احسان کو ایک جنرل اسٹور پر ملازمت مل جاتی ہے۔ بانو گھر سنبھالتی ہے، کپڑے سیتی ہے، صابن بناتی ہے، اور محلے کی چند عورتوں کو قرآن پڑھاتی ہے۔ ان کا رشتہ عام ازدواجی رشتے جیسا نہیں، بلکہ ایسا جیسے دو زخمی پرندے ایک دوسرے کی پناہ بن چکے ہوں۔
"اگر ہم نے خود کو ثابت کر دیا… تو شاید وہ بھی مان جائیں گے۔" بانو کا جملہ اکثر احسان کو رات میں جگا دیتا۔
"اور اگر نہ مانے… تو ہم کم از کم خود کو تو کبھی جھٹلا نہیں پائیں گے۔" احسان کی آواز ہمیشہ پُرسکون ہوتی تھی۔
قسط 4: سایہ لوٹتا ہے
ایک دن چند انجان چہرے ان کے محلے میں نظر آتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر دو نوجوان، جن کی نظریں گھر کے دروازے پر ٹکی ہوتی ہیں۔ احسان پہچان جاتا ہے — وہ بانو کے ماموں زاد ہیں۔
رات کو ایک دھمکی آمیز رقعہ دروازے کے نیچے پھینک دیا جاتا ہے:
"واپس آ جاؤ، ورنہ لاش بھی نہیں ملے گی۔"
احسان اور بانو پولیس کے پاس جاتے ہیں۔ معمولی ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ کوئی خاص تحفظ نہیں ملتا، بس ایک رسمی یقین دہانی:
"اگر کچھ ہوا تو ذمہ داری ہماری ہوگی۔"
قسط 5: آخری صبح
ایک عام سی صبح۔ احسان کام کے لیے نکلتا ہے، بانو دروازے کے سامنے جھاڑو دے رہی ہوتی ہے۔ اچانک ایک سفید گاڑی آتی ہے۔ دو نقاب پوش باہر نکلتے ہیں۔
پہلی گولی احسان کے سینے میں۔ دوسری بانو کے ماتھے پر۔
سب کچھ چند لمحوں میں ختم۔ گلی سنسان ہو جاتی ہے۔ پڑوس والے دروازے بند کر لیتے ہیں۔ پولیس ایک گھنٹہ بعد پہنچتی ہے۔
قسط 6: ملک کا ضمیر جاگتا ہے؟
سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے۔ خبر بن جاتی ہے۔ عدالت، سیاست، اور سماج ایک لمحے کے لیے ہل جاتا ہے۔ وزیراعظم نوٹس لیتے ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان مذمت کرتے ہیں۔ پولیس چند گرفتاریاں کرتی ہے، کچھ فرار ہو جاتے ہیں۔
لیکن بانو اور احسان اب صرف ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ ہیں۔
قسط 7: پہاڑوں کے پیچھے خاموشی
کوہ سلیمان کی پہاڑیوں کے دامن میں ایک چھوٹا سا کتبہ:
"ہم نے صرف جینے کی اجازت مانگی تھی، سزا موت کیوں بنی؟"
نیچے دو نام:
بانو بی بی & احسان اللہ – 2025
اختتامیہ:
یہ کہانی نہ کوئی فلم ہے، نہ افسانہ۔ یہ آج کے پاکستان کے ان ہزاروں لڑکیوں اور لڑکوں کی نمائندہ ہے جو صرف جینے کا حق مانگتے ہیں۔
خاموش پہاڑوں کے پیچھے، آج بھی کئی بانو بیبیاں اور احسان اللہ چھپے بیٹھے ہیں۔
اگر آپ کو یہ کہانی متاثر کرے، تو اسے شیئر کریں اور اپنی رائے دیں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
How to Start a Small Business at Home with Little Money
Now more than ever before is it possible to start up a small home based business with minimal capital. It is not that hard to put together a...
 
- 
Blogging has become one of the most powerful tools for sharing knowledge, building a personal brand, or even earning a living online. Whethe...
- 
Now more than ever before is it possible to start up a small home based business with minimal capital. It is not that hard to put together a...
 
 
Nice story... I appreciate it.
ReplyDeleteBht Alaaaaa🩷
ReplyDelete